حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم

ایک طرف یورپی ممالک سے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مذموم بیانات کی خبریں آتی رہتی ہیں وہیں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان ان کی تعریف کر رہے ہیں۔روسی خبر رساں ایجنسی”تاس“کے مطابق،صدر ولادیمیر پوٹن نے 23 دسمبر کو اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین آزادی اظہار رائے میں نہیں آتی۔
“پیوٹن نے کہا کہ ”پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور اسلام کی پیروی کرنے والوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔

“ان کا کہنا تھا کہ ”پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کیا ہے؟کیا یہ تخلیقی آزادی ہے؟میں مانتا ہوں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔میرا ماننا ہے کہ یہ کسی شخص کے عقیدے کی توہین کرنے کی کوششیں ہیں۔

“ان کے مطابق،”اگر آپ لوگوں کے عقائد کی توہین کرتے ہیں،تو اس سے انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے،جیسا کہ ہم نے پیرس میں دیکھا ہے۔جب اخبار کے تمام ممبران کو قتل کر دیا گیا تھا۔آزادی ایک ایسی چیز ہے جو خود سے آتی ہے اور یہ آپ کے آس پاس کے لوگوں کا احترام کرنے سے آتی ہے۔“پوٹن نے نازی جرمن فوج کی تصاویر پوسٹ کرنے کی بھی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ جرمن فوج یا ہٹلر کی تصاویر ویب سائٹ پر لگانا آزادی اظہار میں نہیں آتا ہے‘روسی صدر نے آزادی اظہار کی تعریف لی لیکن کہا کہ اس کی حدود ہیں اور اسے دوسروں کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس ایک کثیر النسل اور کثیر المذہبی ملک ہے جو ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرتا ہے،دیگر کئی ممالک میں یہ احترام کم ہے۔
یاد رہے فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے چند سال قبل ایسے خاکے شائع کیے تھے جن پر مسلمان کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔جبکہ جنوری 2015ء میں کچھ مسلح حملہ آوروں نے شارلی ایبدو کے دفتر پر حملہ کر دیا تھا جس میں 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں کئی کارٹونسٹ بھی شامل تھے۔
اپنی پریس کانفرنس میں روسی صدر نے جمالیاتی آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’مجموعی طور پر تخلیقی آزادی کی حدود مقرر ہونی چاہئے اور ان میں کسی اور کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔روسی صدر کے اس بیان پر وزیر اعظم عمران خان کا اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ ’میں روسی صدر کے اس بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔یہ میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے۔
اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یورپی ممالک میں جو تماشے ہوتے رہے ہیں،کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔اس سلسلے میں کئی یورپی لیڈروں کے بیانات مضحکہ خیز ہی نہیں،افسوسناک رہے ہیں مگر روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ مقدس شخصیات کی اہمیت سے وہ واقف ہیں اور اظہار رائے کے دائرے سے بھی۔اسلامو فوبیا پہلے بھی تھا،البتہ 9/11 کے بعد اس میں کافی اضافہ ہو گیا۔
ان حملوں کے بعد جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’صلیبی جنگ‘ بتایا تھا۔اسے مسلم مخالف لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ شروع کرنے کا اشارہ سمجھ لیا،اس طرح کے بیانات آنے لگے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں مگر سارے دہشت گرد مسلمان ہیں۔کئی ممالک اپنے علاقوں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنے لگے۔

تھائی لینڈ کی حکومت تھائی لینڈ کے جنوبی حصے کے پاتانی،یالا اور نارا تھیوات صوبوں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنے لگی۔فرانس میں اسلام کی مقدس ترین شخصیت کے خاکے کی حمایت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کی جا رہی تھی۔دیگر یورپی ملکوں میں بھی حالات یہی تھے۔براک اوباما کے امریکہ کا صدر بننے تک امریکی لیڈروں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ مسلمانوں میں امریکہ کی شبیہ مسخ ہوئی ہے۔
ہٹلر اور میسو لینی کے مذموم عمل کو ان کے ہم مذہب لوگوں سے نہیں جوڑا گیا تھا مگر 9/11 کے حملوں کو مسلمانوں سے جوڑا گیا جس کے اثرات دنیا بھر کے مسلمانوں پر پڑے،اس لئے مسلمانوں اگر امریکہ کو مسلم مخالف ماننے لگے ہیں تو انہیں کون غلط کہہ سکتا ہے۔ان ہی باتوں کے مدنظر اوباما نے قول و عمل سے یہ دکھانے کی ہر ممکن سعی کی کہ امریکہ نہ اسلام مخالف ہے نہ ہی مسلم مخالف ہے۔
مسلمانوں کے تئیں ڈونالڈ ٹرمپ کا قول و عمل اوباما سے برعکس تھا مگر بائیڈن پھر سے امریکہ کو اسی ڈگر پر لانا چاہتے ہیں جس پر اوباما اسے رکھنا چاہتے تھے۔اسی لئے امریکہ میں اسلامو فوبیا کے خلاف بل پاس ہوا ہے اور اس کی حمایت خود بائیڈن نے کی ہے۔امریکی ایوان نمائندگان میں اسلامو فوبیا کے خلاف بل کی حمایت میں 219 ڈیمو کریٹس نے ووٹ ڈالے مگر 212 ری پبلکنس نے اس کی حمایت نہیں کی۔

سوال یہ ہے کہ اسلامو فوبیا کے خلاف بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس پر حتمی جواب دینا مشکل ہے،البتہ یہ بل دنیا کے بدلتے حالات کا اشارہ ہے۔یہ بات کہی جا رہی ہے کہ 2028ء تک چین اقتصادی محاذ پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا،مطلب یہ کہ چین سے نمٹنے کے لئے امریکہ کو جو کچھ کرنا ہے،2027ء تک ہی کرنا ہو گا،چنانچہ وہ چین کو ہر طرح سے گھیرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
جبکہ اسلامو فوبیا کے خلاف بل کا امریکی نمائندگان میں پیش کیا جانا حیرت کی بات نہیں،حیرت اس پر بھی نہیں کہ امریکہ کے حریف روس کے سربراہ ولادیمیر پوٹن نے اس وقت کو ایک ایسے ایشو پر بیان کیلئے چنا جو مسلمانوں کیلئے بے حد اہم ہے،حیرت اس بات پر ہے کہ ہری دوار میں ہوئے’دھرم سنسد‘میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے گئے جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بدلتی دنیا میں اسلام اور مسلمان ایک اہم ایشو ہیں اور دنیا کی تبدیلی انہیں نظر انداز کرکے ممکن نہیں۔اب یہ بحث کا الگ موضوع ہے کہ اس تبدیلی کا اثر مسلمانوں پر پہلے منفی اور پھر مثبت پڑے گا تو کیسا پڑے گا!