غازی عبدالقیوم شہید

میرے رب نے مجھے شہادت جیسی نعمت سے سرفراز کیا، غازی عبدالقیوم شہید

لاہور (ڈیلی مسلم ورلڈ) غازی عبدالقیوم شہید ، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے شہر غازی آباد ضلع ہزارہ کے رہنے والے تھے. تلاش روزگار میں کراچی منتقل ہو گئے تھے اور گھوڑا گاڑی چلایا کرتے تھے. اس قلیل آمدنی سےاپنی بوڑھی ماں، بیوہ بہن، ضعیف چچا اور نوبیاہتا بیوی کی کفالت کرتے تھے۔ غازی صوم و صلواۃ کے پابند تھے.

ایک بدبخت نتھورام آریہ سماجی ہندو تھا جس نے 1933ء میں اپنے خبث باطن کا اظہار ” ہسٹری آف اسلام ” نامی کتاب لکھ کر کیا جس میں اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کئے تھے۔ اس حرکت سے مسلمانوں میں سخت غم وغصہ پیدا ہوگیا۔ اس ملزم کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم ہو ا اور اس کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ لیکن کراچی کے جوڈیشنل کمشنر نے اس کی عبوری ضمانت منظور کرکے اس کو رہا کردیا۔ اس پر مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی.۔ غازی کو جب امام مسجد نے یہ افسوسناک خبر سنائی کہ ایک خبیث ہندو نتھورام نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے تو آپ تڑپ اٹھے اور اسی وقت عہد کیا کہ وہ اس کافر کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

نتھورام کا مقدمہ جس روز سندھ ہائی کورٹ میں دو انگریز ججوں کے سامنے پیش ہونا تھا اس دن عدالت کے باہر ہندو اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جو فیصلہ سننے کے انتظار میں تھے۔ نتھورام اپنے وکلا کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہوا کور ٹ میں داخل ہوا۔ غازی موقع ملتے ہی کورٹ روم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے آپ نے موقع ملتے ہی اپنے نیفے میں چھپا ہوئے خنجر کو نکالا اور عقاب کی طرح جھپٹ کر اس ملعون کے جسم میں اتار دیا۔ اس خیال سے کہ یہ بدبخت کہیں زندہ نا بچ جائے غازی نے ایک بھرپور وار اس کی گردن پر کر کے اس کی شہ رگ بھی کاٹ دی۔ اس خبیث کا کام تمام کرنے آپ نے اس کی لاش پر تھوک دیا اور فرمایا ” اس خنزیر نے میرے آقا کی توہین کی تھی اس لئے میں نے اس کو جہنم رسید کردیا ہے ” اس کے بعد آپ نے نہایت اور سکون سے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیا۔ اس واقعہ کے بعد عدالت میں بھگدڑ مچ گئی اور جج بھی سراسیمہ ہوگئے

مقدمہ قتل کی سماعت کے دوران ایک انگریز جج نے جب آپ سے دریافت کیا کہ تم نے بھری عدالت میں اس واردات کی ہمت کیسے کی تو آپ نے عدالت میں آویزاں جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ” تم انگریز کیا اپنے بادشاہ کی توہین برداشت کرسکتے ہو ؟ نہیں تو پھر میں اپنے دین ودنیا کے آقا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کی توہین کیسے برداشت کرسکتا تھا”۔ آپ نے اپنی صفائی پیش کرنے سے انکار کردیا۔ سیشن کورٹ نے آپ کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سزا سن کر آپ خوشی اور مسرت ضبط نہیں کرسکے اور آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی۔ مسلمانوں نے جب اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا

” آپ لوگ مجھے دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضری کی سعادت سے کیوں محروم کرنا چاہتے ہیں ؟ ”

عدالت عالیہ میں آپ کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔ ہر پیشی پر آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مسلمانوں کے بے پناہ ہجوم ہوا کرتا تھا جو آپ پر گل پاشی کرتا اور نعرہ تکبیر بلند کرتا رہتا تھا۔ انگریز حکومت اپنی فطری مسلم دشمنی اور ہندو نوازی کے باعث ہر صورت آپ کو سزا دینا چاہتی تھی۔ بالآخر آپ کی اپیل اعلی عدالت نے خارج کرکے آپ کی سزا برقرار رکھی۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا ” مجھے اپنی قسمت پر ناز ہے کہ میرے ہاتھوں وہ خبیث جہنم رسید ہوا اور میرے رب نے مجھے شہادت جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ یہ ایک جان کیا چیز ہے، اگر ایسی ہزاروں جانیں بھی ہوتیں تو وہ سب اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کردیتا۔

مسلمانوں کا ایک بھاری وفد لاہور علامہ اقبال کے پاس پہنچا اور کہا ”آپ وائسرائے سے مل کر عبدالقیوم کی سزائے موت کے بجائے عمر قید سے بدل دینے کے لئے کہیں۔“ علامہ نے یہ سب کچھ سنا اور کوئی دس منٹ تک گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ لبوں کو جنبش تک نہ دی۔ آنکھیں بھر آئیں اور جذبے سے کپکپاتی آواز میں پوچھا ” کیا عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟“ جواب ملا ”نہیں وہ تو اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہے۔“ علامہ کا چہرہ سرخی سے تمتمانے لگا۔ ”بولے ، جب وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لئے وائسرائے کی منت کروں جو زندہ رہا تو غازی اور پھانسی چڑھ گیا تو شہید”.

19 مارچ 1935ء کو آپ کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا۔ آپ کی عمر اس وقت 23 سال تھی۔ یہ دن لوح تاریخ پر ثبت ہوگیا۔ غازی عبدالقیوم شہادت سے ہم کنار ہو کر امر ہوگیا۔

شہید کے جنازے میں ہزاروں مسلمان شریک ہوئے جن کے ہجوم پر انگریزی حکومت کے ایما پر فوج و پولیس نے گولیوں کی بارش کردی. سینکڑوں مسلمان اس درندگی کا شکار بنے۔ یہاں تک کے مکانوں کی چھتوں پر موجود عورتیں اور بچے جو شہید کا جنازہ دیکھ رہے تھے وہ بھی اس شقاوت سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ شہید کو کراچی کے مشہور قبرستان میوہ شاہ میں سپردخاک کیا گیا