نعیم الحق

ایک بلیک میلر صحافی نے بسترمرگ پرموجود نعیم الحق کو بھی نہیں چھوڑا

اسلام آباد (مسلم ورلڈ) زندگی کے آخری دنوں میں وزیراعظم کے معاون خصوصی نے نعیم الحق نے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا تھا ۔انہیں ناقابل علاج بیماری کی تشخیص ہوئے محض 24 گھنٹے ہوئے تھے اور ڈاکٹروں کے بورڈ نے انہیں بتا دیا تھا کہ خون اور ہڈیوں کے کینسر کی جو بیماری لاحق ہوئی ہے اس کا دنیا میں کوئی علاج نہیں.

تاہم امریکہ یا برطانیہ میں صحت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے وہ کئی ماہ زندہ رہ سکتے ہیں ۔نعیم الحق اپنے چند قریبی دوستوں کے ساتھ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے چوتھے فلور پر اپنی بیماری کے متعلق گفتگو کر رہے تھے ایک نجی چینل کے اینکر کا پروگرام چلنے لگا ۔ایک دوست نے دفتر میں لگے ٹی وی پر اس پروگرام کی طرف توجہ دلائی ۔

پروگرام میں خواتین کے حوالہ سے نعیم الحق پر الزامات لگائے گئے تھے ۔وفاقی وزیر کا درجہ رکھنے والے نعیم الحق کا تبصرہ تھا

“اس خبیث کے بھائی کو کالج ٹیچری سے اٹھا کر ڈائریکٹر لگوایا کسقدر نیچ انسان ہے”

اس دن کا قصہ بیان کرتے ہوئے اس قریبی دوست کا کہنا تھا کہ پروگرام ختم ہونے کے بعد اسی اینکر کا نعیم الحق کو فون آ گیا ۔نعیم الحق شدید غصے میں تھے اور دکھی تھے پندرہ منٹ بعد بات ختم ہوئی تو نعیم الحق کا کہنا تھا کہ بلیک میلر ہے پیسوں کے چکر میں ہے ۔

اینکر نے اس کے بعد باقائدہ مہم شروع کی ۔دوسرے چینلز میں موجود اس کے دوست اینکرز نے بھی اس مہم میں حصہ ڈالا اور پھر ایک دن ڈیل ہوئی ۔پچاس لاکھ کی خواہش تھی کہ ایک گھر خریدا ہے اسکی “کچھ ادائیگی “ کرنا ہے ۔

25 لاکھ پر معاملہ طے ہوا ۔ ایک صوبے کے گورنر نے اپنی زاتی جیب سے اینکر کو پیسے دئے اور دوستی دوبارہ ہو گئی چوتھے فلور کی مہم بھی بند ہو گئی لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو چکا تھا۔

نعیم الحق کی بیرون ملک علاج کی سمری متعلقہ سیکرٹری نے “گو سلو “ کر دی۔سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بعد میں عدالتوں اور نیب کو جواب کون دے گا ۔نعیم الحق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی اپنے علاج کی سمری منظور نہیں کرا سکے ۔

نعیم الحق کو جب ڈاکٹروں نے بتا دیا کہ اب ان کے پاس صرف ایک ڈیڑھ ماہ بچا ہے تو انہوں نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کر دی کہ وفاقی دارالحکومت کے قبرستان میں انکی تدفین کی جائے ۔وزیراعظم کے ایک اور معاون جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے منسٹرز کالونی میں نعیم الحق کے بنگلے پر نظر لگائے بیٹھے تھے ۔

اس معاون خصوصی کو خبر مل چکی تھی کہ نعیم الحق بس اب دنوں کے مہمان ہیں ۔اس نے نعیم الحق کے بیٹے کو کراچی سے بلوایا اور مشورہ دیا کہ “والد کو زندگی کے آخری دن اپنے پیاروں کے ساتھ گزانا چاہیئں “

بیٹا متفق ہو گیا اسے انسانی خود غرضی اور بنگلہ کے حصول کے متعلق کوئی خبر نہیں تھی ۔نعیم الحق کو بیرون ملک علاج کے بہانے ائر پورٹ پر لایا گیا ۔

اینکر کی چوتھے فلور کے متعلق خبر نے نعیم الحق کی بہت سبکی کرائی تھی ۔جب یہ خبر پھیل گئی کہ نعیم الحق کے پاس بس چند دن باقی ہیں ۔لوگوں نے ان کے پاس آنا چھوڑ دیا ۔اینکر سے معاملہ طے ہونے کے بعد نعیم الحق صرف ایک ہفتہ دفتر آ سکے پھر کبھی دفتر نہیں آئے ۔

وفاقی وزیر ہونے کے ناطے وہ ائر ایمبولینس اور دیگر سہولتوں کے حقدار تھے لیکن انہیں کار میں ائر پورٹ پر پہنچایا گیا ۔

وہاں کوئی سرکاری اہلکار معاونت کیلئے موجود نہیں تھا ۔وہاں ویل چئیر بھی موجود نہیں تھی ۔

اور پھر ایک دن نعیم الحق کی کہانی ختم ہو گئی ۔جنازہ پر کوئی نہیں تھا ۔جس طرف زندگی کے آخری ایام میں وہ اکیلئے رہ گئے تھے ان کے جنازے میں بامشکل دو درجن لوگ تھے ۔

نعیم الحق کے ساتھ کیا بیتی کے عینی شاہد کا کہنا ہے ۔

“یہ سب بھوکے بھیڑے ہیں ایک دائرہ میں کسی کے کمزور ہو کر گرنے کے منتظر ہیں ۔جس کی آنکھ جھپکی باقی سارے مل کر چیڑ پھاڑ دیں گے اور کھا جائیں گے “