اعلی افسران کی طلبی

لاہور ، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر اعلی افسران کی طلبی

لاہور (ڈیلی مسلم ورلڈ) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی طرف سے ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز کو مجسٹریٹسی کے اختیارات دینے کے خلاف درخواست پر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے اور نوٹیفکیشن معطلی کے باوجود مجسٹریٹس کے اختیارات استعمال کرنے پر چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری قانون پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر کمشنر لاہور ڈویثرن ،ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ اور اسسٹنٹ کمشنر مریدکے کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیئے اور قراردیا کہ اسسٹنٹ کمشنر مریدکے ،ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ اور کمشنر لاہور ڈویثرن وضاحت کریں کیو ں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، عدالت کے علم میں لایا گیا ہے کہ کچھ افسران نے عدالتی حکم کے باوجود مجسٹریٹس کے اختیارات کا استعمال کیا، عدالتی حکم کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری داخلہ اور دیگر افسران کا فرض تھا کہ نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے، عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ حکومت عدالتی حکم پر عملدرآمد میں ناکام رہی ہے، پنجاب حکومت کی کارکردگی عدالتی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، تمام سرکاری افسران عدالتی حکم کے صوبے میں عملدرآمد نہ ہونے پر وضاحت پیش کریں۔ عدالت نے درخواست کی سماعت 26 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے معمولی جرائم میں ملوث ان تمام ملزمان کا ریکارڈ طلب کر لیا جن کو نوٹیفکیشن کی معطلی کے بعد سزائیں ہوئی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے تنویر عبداللہ کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت آئی جی جیل خانہ جات نے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ معمولی جرائم میں ملوث 17 ملزمان پرائس کنٹرول ایکٹ کے تحت جیلوں میں اب بھی موجود ہیں۔سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے عدالت کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے بعد اپنا نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔ عدالتی استفسار پرسرکاری وکیل نے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے زبانی طور ٹیلی فون پر صوبہ بھر کے ڈی سی اور اے سی صاحبان کو عدالتی حکم سے آگاہ کر دیاتھا،

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری قانون کی مشاورت کے بغیر کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں ہو سکتا، ، عدالت نے سرکاری وکیل کی موجودگی میں آرڈر جاری کیا مگر اسکی دانستہ تعمیل نہ کی گئی۔ قبل ازیں درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر مومن ملک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت نے نوٹفیکیشن معطل کرنے کے باوجود مختلف مقامات پر ڈی سی نے جوڈیشل اختیارات استعمال کر کے فیصلے کیے،

بیرسٹر مومن ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو آئین میں الگ الگ اختیارات دیئے گئے، حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیئے ۔ بیرسٹر مومن ملک نے استدعا کی کہ عدالت نوٹیفیکیشن کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے۔