چیف جسٹس پاکستان

کراچی شہر میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق سی ای او کے الیکٹرک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پرچیف جسٹس کا عدم اعتماد

کراچی(ڈیلی مسلم ورلڈ)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ سے ہلاکتوں کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کے الیکٹرک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتی آرڈر کے بعد آدھے شہر میں بجلی بند کردی گئی، یہ کون ہیں بجلی بند کرنے والے، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں، لوگ مرتے ہیں اور یہ جا کر ہائی کورٹ سے 50،50ہزار روپے کی ضمانت کرا لیتے ہیں، ہائی کورٹ بیٹھی ہی اس کام کیلئے ہے، لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے،

ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے،جس کمپنی نے کے الیکٹرک کو خریدا ہے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی، کمپنی کے وسائل کیا ہیں، تجربہ کیا ہے، کے الیکٹرک کو کس طرح خریدا گیا، سب بتایا جائے، کے الیکٹرک کو آپریٹ کیسے کیا جاتا ہے، تمام تفصیلات سے اسلام آباد آکر ہمیں آگاہ کریں۔جمعرات کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شہر میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین نیپرااور سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی بھی پیش ہوئے ۔اوراپنی اپنی رپورٹ جمع کرائی۔شہر میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق سی ای او کے الیکٹرک کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پرچیف جسٹس گلزاراحمد نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سی ای او کے الیکٹرک سے کہا کہ رپورٹ میں کیا ہے، ہمیں پڑھ کر بتائیں؟۔کے الیکٹرک کے سی ای او نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کے 75 فیصد علاقوں میں زیرو لوڈ شیڈنگ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دہلی کالونی، محمود آباد، ڈیفنس 5 ،6 میں کل وقفے وقفے سے بجلی بند تھی۔سی ای او کے الیکٹرک نے بتایا کہ گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہوئی۔

اس موقع پر چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ کے الیکٹرک نے عدالتوں سے جتنے اسٹے لیے ہیں ان کی فہرست لایا ہوں، کے الیکٹرک نے صارفین کے 40 بلین روپے پر بھی حکمِ امتناع لیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ نجی کمپنی سے بجلی خریدنے پر بھی کے الیکٹرک نے حکمِ امتناع لے رکھا ہے، جن صارفین کا پیسہ بنتا ہے کے الیکٹرک واپس کرے۔چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ان کے ہر منصوبے میں گڑبڑ ہے، سوئی سدرن کمپنی سے گیس کا منصوبہ بھی نہیں ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی آرڈر کے بعد آدھے شہر میں بجلی بند کردی گئی، یہ کون ہیں بجلی بند کرنے والے، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں، لوگ کرنٹ لگنے سے مررہے ہیں اور یہ 50 پچاس ہزار کی ضمانت حاصل کرلیتے ہیں۔عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کو 20 کروڑ جرمانہ کیا جائے تو دوسری بار شکایت نہ ہو، ان کو 50لاکھ جرمانہ کیا جاتا ہے جو یہ چند دن میں کما لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کے الیکٹرک کا مالک جیل میں بند ہے، ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ دوسرے ملک میں گرفتار ملزم کو کمپنی دے رکھی ہے، جیل میں جانا ان کیلے کوئی مسئلہ ہی نہیں جیسے سیاستدان جیل بیٹھ کرمعاملات چلاتے ہیں، انہیں فرق اس وقت پڑتاہے جب پیسہ دینا پڑتا ہے۔کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ جیل میں قید شخص کمپنی کا مالک نہیں بلکہ شیئر ہولڈر ہے، یہ پبلک ہولڈنگ کمپنی ہے، جس کے ڈائریکٹر موجود ہیں۔صارفین کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ کے الیکٹرک کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔

انہوں نے کہاکہ کے الیکٹرک کے خلاف پچھلے سال کارروائی ہوجاتی تو اس سال لوگ نہیں مرتے۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ساری دنیا میں ریگولیٹرز کے معاملات عدالت میں نہیں جاتے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان کی اجارہ داری ہے جس کا خمیازہ کراچی والے بھگت رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو بجلی، پانی نہیں ملتا، رہنے کیلئے جگہ نہیں ملتی، بڑے لوگ مزے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو جیل میں کوئی مسئلہ نہیں، ان کو اس وقت مسئلہ ہوتا ہے جب پیسہ نکلوایا جائے، جیل میں تو انجوائے کرتے ہیں، ان کی جیب پر بات آئے تب جان جاتی ہے، ان پر بھاری جرمانے لگنے چاہئیں۔عدالتِ عظمی نے آئندہ سماعت پر وفاق سے کراچی کو مستقل بجلی کی فراہمی کا پلان پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوئی گیس، پی ایس او سارے معاملات گندے ہیں، بجلی، پانی، پیٹرول، صاف جگہ تک لوگوں کو نہیں ملتی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزرا بڑی بڑی گاڑیوں، ہیلی کاپٹر میں لوگوں کو دیکھنے جاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں ہم کیا بندر ہیں جو ہمیں دیکھنے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک والے صرف یہاں پیسہ بناتے ہیں۔عدالتِ عظمی نے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق مزید سماعت اسلام آباد میں کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی۔