چڑیا گھر

چڑیا گھر میں مبینہ بدانتظامی ،چیئر مین سی ڈی اے نے جواب جمع کرادیا ،معاملے سے لاتعلقی کا اظہار

اسلام آباد (ڈیلی مسلم ورلڈ)اسلام آباد ہائیکورٹ میں چڑیا گھر میں مبینہ بدانتظامی سے جانوروں کی موت اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیس میں چیئر مین سی ڈی اے نے جواب جمع کرادیا جس میں معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ۔ جمعرات کو کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کی ۔

چڑیا گھر جانوروں کی ہلاکت کے توہین عدالت کیس میں چیئرمین سی ڈی اے نے جواب جمع کرایا ،اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں چیئرمین سی ڈی اے نے معاملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ۔چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت سے غیر مشروط معافی منظور کرنے کی استدعا کردی ۔ چیئر مین سی ڈی اے نے کہاکہ عدالتی حکم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے، چیئرمین سی ڈی اے کو بطور ممبر وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری ہوا۔

چیئر مین سی ڈی اے نے کہاکہ چھ جولائی 2020 کو مرغزار چڑیا گھر کا کنٹرول بورڈ سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو منتقل کردیا گیا۔ جواب میں کہاگیاکہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے عدالت فیصلے کے تناظر میں بہت سارے جانوروں کو ان کی پناہ گاہوں میں منتقل کیا، جانوروں کی ہلاکت کے کے واقعے کی بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا۔ چیئر مین سی ڈی اے نے کہاکہ اس وقت وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا کردار ایک ایڈوائزری حیثیت کا ہے۔ عدالت نے کہاکہ اہم شخصیات وائلڈ لائف بورڈ کی ممبرشپ لے لیتے، ذمہ داری کوئی نہیں لیتے ؟ ۔

عدالت نے استفسار کیاکہ جانوروں کی ہلاکت کے جو ذمہ دار ہیں وہ ذمہ داری کیوں نہیں لیتے ؟ ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہاکہ کیا تمام بورڈ ممبران نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادیا ؟ ،وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم، وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے جواب کے لیے مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیا وائلڈ لائف بورڈ گزٹ میں چھپا نہیں، پرانے نوٹیفکیشن میں وزیر اعظم بھی رکن ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر اعظم کو تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ چڑیا گھر میں کیا ہوا ؟ چڑیا گھر میں جانوروں کا کھانا تک چوری کیا جاتا رہا ۔عدالت نے کہاکہ بین الاقوامی تضحیک سے بچنے کے لیے تفصیلی فیصلے میں جانوروں کے کھانا چوری کا ذکر نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جس طرح چڑیا گھر میں غفلت ہوئی لگتا ہے پوری ریاست ایسے ہی چل رہی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں نا جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو انہیں پنجروں میں بند کردیں ؟ کم از کم دو گھنٹے تو ذمہ داروں کو شیر والے پنجرے میں بند ہونا چاہیے، بااثر بورڈ ممبران ذمہ داری سے جان چھڑا کر چھوٹے ملازمین کو آگے کردیتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 25 ستمبر تک تمام وائلڈ لائف بورڈ ممبران سے جواب طلب کرلیا ۔عدالت نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم، وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔