مفتی منیب الرحمن

ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیلا جارہا ہے،مفتی منیب الرحمن

کراچی (ڈیلی مسلم ورلڈ)رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

اس تباہ کن سازش کے سرپرست وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اندر موجود ہیں۔ایک طرف اتحاد، اخوت اور رواداری کے پیغامات دیئے جائیں اور دوسری طرف زبانوں سے نفرت اور فتنہ انگیزی کے شعلے اگلے جائیں ، اب یہ منافقت نہیں چلے گی۔صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ اگر فوری تدارک نہ کیا گیا تو پہلے مرحلے پر ہم کراچی میں تاریخ کی سب سے بڑی پرامن ریلی کا اہتمام کریں گے اور اس کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

اہلِ کراچی پر ایک قیامت گزر گئی ،جبکہ وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات میں مصروف رہیں۔وزیر اعظم کراچی کی تباہی کے ازالے اور بحالی کے لیے تاریخی پیکج کا اعلان کریں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کودارالعلوم امجدیہ میں ممتاز علمائے اہلسنت مفتی محمد جان نعیمی ، مفتی محمد رفیق حسنی،مفتی محمد الیاس رضوی ،صاحبزادہ ریحان امجد نعمانی ،علامہ رضوان نقشبندی ،مفتی عابد مبارک ، علامہ سید مظفر شاہ ،مولانا بلال سلیم قادری ، ثروت اعجازقادری اور تاجر برادری کی نمائندہ شخصیات کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ اہلِ کراچی پر ایک قیامت گزر گئی ،جبکہ وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات میں مصروف رہیں، یہ اہلِ کراچی کے ساتھ نہایت سنگ دلانہ رویہ ہے ۔ حکومتوں کی نا اہلی تو ہمارے ہاں ایک مسلم امر ہے ، لیکن اس سال مون سون بارشوں کا سلسلہ بھی غیر معمولی رہا ،بعض اخبارات کے مطابق نوے سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ ایریاز کالینڈ کنٹرول کنٹونمنٹ بورڈ کے پاس ہے، مگر ڈی ایچ اے میں اس کا انفرااسٹرکچر بھی ناکام ثابت ہوا اورتاحال اس کی نکاسی نہیں ہوسکی۔

کراچی کے کئی علاقوں میں پانی گھروں ، دکانوں اور مساجدکے اندر چلا گیا ،لوگوں کا گھریلو اور تجارتی سازوسامان حتی کہ بیٹیوں کا جہیز تک برباد ہوا، بعض علاقوں میں کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو نکالا گیا، بعض مقامات پر مکان گرے اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں، بعض لوگوں کی لاشیں نالوں سے ملیں ، یہ انسانیت کے لیے ایک اذیت ناک امر ہے۔انہوںنے کہا کہ وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتیں اپنا اپنا دامن جھاڑ کر دوسروں کو ذمے دار قرار دیتی رہیں، بلیم گیم کا سلسلہ جاری رہا، بعض وفاقی وزرانے کراچی کے دورے کیے ، لیکن فوٹو سیشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔یہ دکھی انسانیت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، ہم اپنی دینی، ملی اور قومی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ کراچی کے المیے پر توانا آواز بلند کریں۔

مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور صوبہ سندھ کی حکومت سے ہمارامطالبہ ہے کہ کراچی کے المیے کو معمولی نہ سمجھا جائے، شہر کا انفرااسٹرکچر برباد ہوچکا ہے ، سڑکیں ناکارہ ہوچکی ہیں ،سیوریج لائن کا نظام فیل ہوچکا ہے ، پانی کی سپلائی ضرورت سے کم ہے ،موبائل سروس، انٹرنیٹ اور بجلی کا نظام بھی بالکل ناکام ہوچکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک کو نہ وفاقی حکومت کی کوئی پروا ہے اور نہ ہماری اعلی عدالتوں کی، لوگ حیران ہیں کہ اس ادارے کے پیچھے کون سی غیبی طاقت ہے کہ حکومت اس پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کر رہی ہے اور کوئی باز پرس بھی نہیں ہورہی، من مانے بل وصول کیے جارہے ہیں ،

ان کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے اور خیانت اور دھوکا دہی سے عوام سے لی گئی رقوم واپس ہونی چاہئیں۔انہوںنے کہا کہ نالوں ، فٹ پاتھوں اورخالی جگہوں پر تجاوزات قائم کی گئیں ، کے ایم سی ،کے ڈی اے،واٹر بورڈ، ڈی ایم سیز، ایم ڈی اے اورایل ڈی اے کے لینڈ کنٹرول کے باقاعدہ محکمے ہیں ، افسران کی بھرمار ہے ، سوال یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے ہوا، نیز کون سی سیاسی اور حکومتی قوتیں تھیں جن کی چھتری تلے یہ کام ہوتے رہے اور قانون اندھا اور بہرہ ہوگیا۔کراچی کا انفرااسٹرکچر (سڑکیں، سیوریج لائن، واٹر لائن ، الیکٹرک سسٹم وغیرہ)ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لیے ہرگز نہیں بنایا گیا تھا، نہ اس کے بناتے وقت لاکھوں کی تعداد میں فلیٹس کا کوئی تصور تھا، مگر انفرااسٹرکچر کو بدلے اور توسیع دیے بغیر یہ سب کچھ ہوتا رہا ۔

انہوںنے کہا کہ کے الیکٹرک کے ترسیلی نظام کوشہر کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جائے، جو بارش اور ہر موسم میں کارآمد رہے اور اس بات کی بھی تحقیق کی جائے کہ کے الیکٹرک نے پاکستانی بینکوں سے صکوک کے عوض جواربوں روپے لے رکھے ہیں، وہ کہاں خرچ ہوئے۔انہوںنے کہا کہ حالیہ بارشوں میں جو لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں ،ان کے لواحقین کو قومی معیار کے مطابق زرِ اعانت دیا جائے۔نالوں پر سے تجاوزات ختم کر کے اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے اور متاثرین کی بحالی کا متبادل انتظام کیا جائے۔کراچی کے نالوں کے بند ہونے کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا ، جب تک کہ شہر کے گلی کوچوں سے کچرا اٹھانے اور اسے شہر سے باہر لے جاکر مقررہ مقام پر ڈمپ کرنے کا انتظام نہ ہو، جب تک یہ نہیں ہوگا ،

یہ شیطانی چکر چلتا رہے گا، نیز گلی کوچوں اور پارکوں میں کچرا پھینکنے کو تعزیری جرم قرار دیا جائے اور اس کے لیے مناسب سزائیں مقرر کی جائیں ،لوگوں کو قانون کی طاقت سے شہری اقدار کاپابند کیا جائے۔مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم نے 29جولائی کو اسی ہال میں پریس کانفرنس کر کے قومی سلامتی کے اداروں کو نہایت دردِ دل کے ساتھ متوجہ کیا تھا کہ ملک کو کسی داخلی یا بین الاقوامی سازش کے تحت فرقہ ورانہ تصادم کی طرف دھکیلا جارہا ہے ، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہماری گزارشات پر توجہ نہیں دی گئی ۔ چنانچہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تسلسل کے ساتھ عام مجالس میں صحابہ کرام کی توہین کا گستاخانہ اور مجرمانہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے ،اس کے محرکات غیر ملکی بھی ہوسکتے ہیں اورملک کے اندر بھی کوئی ایسی طاقت ہے جو مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے،

ایک مجرم کو توراتوں رات برطانیہ بھیج دیا گیا ہے ،لوگ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا کی طرف انگلیاں اٹھارہے ہیں اور ہمیں اس میں کوئی نہ کوئی صداقت نظر آرہی ہے۔ چنانچہ اسلام آباد میں بھری مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تکفیر کی بات کی گئی اور کراچی میں نمازِ ظہرین کے بعد لاڈ اسپیکر پر صحابہ کرام پر لعن طعن کی گئی ،جو سوشل میڈیا اور بعض چینلز پر براہِ راست نشر ہوئی ، پاکستان کی تاریخ میں ماضی میں ایسی ناپاک جسارت کرنے کی کسی کوہمت نہیں ہوئی۔ ناموسِ الوہیت جل وعلا ،ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علی ہِ وآلِہِ وسلم ، ناموسِ اہلبیتِ اطہاروناموسِ صحابہ کرام رِض وان اللہِ علی ھِم اج معِی ن اور ناموسِ مقدساتِ دین کی حرمت کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایک طرف اتحاد، اخوت اور رواداری کے پیغامات دیے جائیں اور دوسری طرف زبانوں سے نفرت اور فتنہ انگیزی کے شعلے اگلے جائیں ، اب یہ منافقت نہیں چل پائے گی۔

وزیرِ اعظم کی ذمے داری ہے کہ اپنی صفوں کا جائزہ لیں اور پتاچلائیں کہ ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کے لیے حکومت کی صفوں میں موجود کون سے عناصر مصروفِ عمل ہیں۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہم ایک بار پھر وزیرِ اعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کو براہِ راست متوجہ کر رہے ہیں کہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ اگر فوری تدارک نہ کیا گیا تو پہلے مرحلے پر ہم کراچی میں تاریخ کی سب سے بڑی پرامن ریلی کا اہتمام کریں گے اور اس کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا جائے ۔ اب بھی ہماری خواہش ہے کہ سیاسی اور دفاعی قیادت ایکشن میں آئے اور اس کے اقدامات ہر ایک کو نظر آئیں، ہمارا ملک کسی بے امنی اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ہماری سرحدوں کے چاروں طرف کی صورتِ حال انتہائی حساس ہے ، جب پرامن رویوں کو نظر انداز کردیا جائے ، امن پسندی کوکمزوری سمجھا جائے تو پھر لوگوں کے پاس احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، ہم نہیں چاہتے کہ ملک دشمن قوتیں اور سیاسی عناصر اس مذہبی بے چینی سے فائدہ اٹھاکر اسے اپنے حق میں استعمال کریں۔